کوئلہ باعثِ تخریبِ ماحول-تو کیوں؟
سائنس کے بارے میں دنیا میں دو مکاتب فکر ہیں ایک کا کہنا ہے کے دنیا میں جتنی بھی ترقی ہوئی ہے وہ سائنس تیکنالوجی کی بدولت ہے اور اس سے دنیا کو بہت سی سہولتیں میسر آئیں ہیں دوسرے مکتب فکر کا کہنا ہے کے دنیا نےترقی تو بہت کر لی ہے لیکن یہ سہولیات نوع انسانی کے لیے رحمت کے بجائے زحمت بنتی جا رہی ہیں مثلا آب و ہوا کی تبدیلی، صنعتی فضلہ، زہریلی گیسیں، طبی فضلہ اور انسانی فضلے کو ٹھکانے نہ لگانا ، سمندری حیات کی تباہیسی دور دور تک تیزابی بارشوں کا برسنا شامل ہیں۔سائنس نے ایٹمی اور کیمیائی اسلحہ بنا کر صفحہ ہستی سے انسانی زندگی کو نابود کر دیا ہے۔ در حقیقت سائنس کا صحیح یا غلط استعمال ہی اس کو ذریعہ ء تعمیر یا باعثِ تخریب بنا تا ہے۔
پاکستان نے 2016 میں دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح پیرس معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ یہ آب و ہوا کی تبدیلی کے خلاف اقدامات کرنے کا معاھدہ ہے، جس سے کرہء ارض کی حدت میں کہیں کمی تو کہیں اضافہ ہو رہا ہے۔ کہیں سونامی اور کہیں خشک سالی سے زراعت اور انسانی زندگی تباہ ہو رہی ہے۔ حال ہی میں بتایا گیا ہے کہ کیپ ٹاون میں پانی بالکل ختم ہو گیا ہے۔ چین ، پاکستان اور پولینڈ وغیرہ میں کوئلہ سے بجلی پیدا کربے کے منصوبے تیار کیے جارہے ہیں۔ چین میں ایک علاقہ کاربن کے پھیلا ؤ سے رہنے کے قابل نہیں رہا۔ پولینڈ کے علاقے میں جہاں کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے کے پلابٹس لگائے گئے ہیں ، وہاں آدھی آبادی اسپتالوں میں دمے اور دیگر بیماریو ں مبتلا ہے اور آدھی آبادی وہا ں کی ماسک لگا کرباہر نکلتی ہے۔
پاکستان میں چین کے مدد سے سی پیک کے تحت کئی کوئلے سے بجلی کے پلانٹس تعمیرکیے جارہے ہیں۔ 2020 میں ساہیوال میں6900 میگا واٹ بجلئ کوئلے سے پیدا کے جائے گی، جس کا کل ہدف 1320میگا واٹ ہے۔ یہ پیرد معاہدے کی صریحا خلاف ورزی ہے، کیونکہ اس کا آب و ہوا سے براہ راست تنازعہ ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہوئلہ سے کاربن کا اخراج آب و ہوا کے لیے قیامت خیز ہے، ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے سب سے ذیا دہ مہلک کوئلہ سے بجلی پیدا کرنا ہے، عالمی سطح پر اس سے کاربن کا اخرج ہو رہا ہے، جو آکسیجن کو پضم کر رہا ہے، اس لیے کہ کرہء ارض کا درجہء حرارت بڑھ رہا ہے، اس سے ہوا میں آلود گی اسموگ کی وجہ سے بن رہئ ہے۔ پیجاب میں جسے دھند کہا جاتا ہے آج سموگ بن گئی ہے ، جو کو ئلہ سے بجلی پیدا کرنے کا شاخسانہ ہے۔ گزشتہ جو لائی میں سی پیک کے تحت ساہیوال میں کوئلہ سے بجلی کے 1320 میگا داٹ کے منصوبے کا آغاز کیا گیا ہے اور ایک یو نٹ پورٹ قاسم پر بھی قائم کیا گیا ہے جو 660 ٭ 2 میگا واٹ کا ہے۔ اسے نیشنل گرڈ سے جوڑ دیا گیا ہے۔ حالانکہ ونڈ اور سو لر شفاف انر جی ہے ، دھو پ اور ہوا سے چلنے والے یہ منصوبے کراچی کے لیے نہایت مناسب ہیں لیکن چین نے کوئلہ کو ناجانے کیوں ترجیح دے رکھی ہے، پاکستان کے ماہرین بھی اس پر خاموش ہیں۔ پورٹ قاسم پہ دوسرا منصوبہ 660 میگا واٹ کا جون 2018 میں شروع ہوگا۔
ایک خبر یہ بھی یہ کہ گوادر میں ایک منصوبہ 300 میگا واٹ کا شروع کیا جارہا ہے، ہہا ں جو چار پاور جنریٹر ز لگ رہے ہیں ان کا کوئلہ امپورٹ کیا جایے گا، لیکن یہ معلوم نہیں کا بلوچستان چھملانگ میں جو کوئلہ نکالا جا رہا ہے اس کا حکومت نے کیا کیا۔ البتہ سی پیک کے تحت تھر کول کو زیرِ استعلال لا رہی ہے۔ یہاں اینگرو بڑا کام کر رہی ہے اور پہلی بار حکومت سندھ بھی سنجیدگی سے کا م کررہی ہے، ، لیکن دیکھنا ئہ ہے کہ یہاں پر سپر ٹیکنا لوجی استعمال ہو رہی ہے یا نہیں؟
سندھ میں اینگرو 660 میگا واٹ کا منصوبہ تھر میں لگا رہی ہے، اسی طرح تھر میں 1320 میگا واٹ کا منصوبہ لگا رہی ہے، مٹیاری میں بھی کوئلے سےبجلی پیدا کرنے کا منصوبہ لگ رہا ہے، لیکن میصوبہ ساز اور ماہرین نے آلودگی کے تدارک کے لیے کچھ نہیں بتایا، اینگرو کا ایک پروجیکٹ اکتوبر میں شروع ہونے والا ہے اور کچھ جون 2019 میں شروع ہونگے۔ تین مذید منصوبے آئی پی پی نے شروع کر رکھے ہیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ چین نے بھی پیرس معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں اور دنیا بھر سے 195 ممالک نے اس معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔چین نے اپنے ایک علاقے میں جہاں اندھیروں اور سیاہی کو راج کوئلے کے پلانٹس کی وجہ سے ہے۔ جنوری 2017 میں اچانک 103 کوئلے سے بجلی کے منصوبوں کو روک دیا ہے، جن کی لاگت 62 ارب ڈالر بنتی ہے، تو سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ چین کی مدد سے کوئلہ کے پلانٹس پاکستان میں کیوں لگا ئے جارئے ہیں۔ بیجینگ میں شفاف ہوا کے لیے چینی حکومت نے مہم چلا رکھی ہے، اسی لیے یہاں ایک کوئلے کا پلانٹ، جس نے 845 میگا واٹ بجلی پیدا کرنی تھی بند کر دیا ہے، اسی طرح کئی کول پلانٹس بند کر دیے گئے ہیں۔ بیجنگ میں صاف ابرجی کے 27 منصوبے لگائے جا ریے ہیں ، یہ سب کے سب متبادل انرجی کے منصوبے ہیں اور ان کی گبجائش پیداوار 1300 میگاواٹ ہے۔ لیکن پاکستان میں کوئلے سے بجلی کے پلابٹس لگا ئے جارہے ہیں ، بالکل اس کے برعکس چین کول فائیرڈ پلانٹس برآمد کر رہا ہے، حیرت کی بات یہ ہے کے چین تیسری دنیا کے سو ممالک سے زائد میں پاور جنتیشن پلانٹس برآمد کر رہا ہے، چونکہ چین میں کوئلہ کے منصوبے بند کر چکا ہے۔
چین کے بینکوں کے مزے ہیں وہ ان برآمد کردہ متروک پلانٹس کے لیے قرضے فراہم کر رہے ہیں لیکن سود پورا لیں گے۔ پاکستان اس وقت 89 ارب ڈالرز کے بیرونی قر ضوں کی انتہا کو پہنچ چکا ہے ، جس میں چین کے 60 ارب ڈالرز کے قرضے شامل نہیں ہیں۔ کوئلے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس میں جس قدد استعداد ہوگی اس کے تصرف کی استعداد اتنی ہے کم ہو گی، ما ہرین کو بتانا ہوگا کہ ایسا کیوں ہے، چین کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے کاربن کا اخراج کم ہو گا، ظاہر ہے نالائق آدمی کم ہی کام کرے گا۔ المیہ یہ ہے کہ کوئلہ کے سائڈ افیکٹ بہت ذیادہ ہیں اور پاکستان میں متروک ٹیکنالوجی پر کام ہو رہا ہے۔ مستقبل میں پاکستان میں جتنے کول پلانٹس لگائے جائیں گےاس میں مقامی کوئلہ استعمال ہو گا، لیکن ماحول کا کیا ہوگا یہ کوئی نہیں سوچتا، جو المیہ ہے۔
پاکستان نے 50 سال پرانے میراج طیاروں کو جدید بنالیا
طیاروں میں فضا میں ری فیولینگ سسٹم اہم پیشرفت ہے، ایئر کموڈور سلمان ایم فاروقی
کامرہ ایئرونا ٹیکل کمپلکس میں 50 سال قبل خریدے گئے میراج طیاروں کی ابھی تک اوور ہالنگ اور اپ گریڈیشن ہو رہئ ہے۔ حال ہی میں کامرہ کی فضا ؤں میں جدید دور کے لڑا کا طیارے میراج روزون کے اڑان بھر نے کی گونج سنائی دی جسے پاک فضائیہ نے مکمل نا کارہ ہو جانے کے بعد نئے سرے سے تیار کیا ہے۔
میراج کے پرانے بیڑے میں شامل کئی طیاروں کو برسوں بعد ابھی تک اوور ہال کیا جارہا ہے جن میں پہلے 2 طیارے بھی شامل ہیں سے خریدے گئے تھے۔Dassault جو 1960 میں فرانس کئ طیارہ ساز کمپنی
طیاروں کئ اوور ہالنگ میں ایسی جدید مہارت بروئے کار لائی جا رہی ہے جو ہوانا کی سڑکوں پر چلنے والی کلاسک امریکی کاروں میں استعمال ہو تی ہے۔ کامرہ کمپلکس میں میراج ری بلڈ فیکٹری کے ڈ پٹی مینیجنگ ڈائیریکٹر کموڈورسلمان ایم فاروقی کا کہنا ہےکی ہم نے ایسی صلاحیت تیار کر لی ہے کہ ہمارے ماہرین پرانے میراج طیاروں میں کوئی بھی جدید نظام شامل کر سکتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے لحاظ سے سب سے اہم پیش رفت جنوبی افریقہ کی مدد سے طیاروں میں فضا میں ری فیولنگ کا نظام شامل کرنا ہے۔
اگرچہ 1960 کے بعد پاکستان نے امریکی طیارے حاصل کیے لیکن میراج طیارے پاک فضا ئیہ کی پہلی چوائس بنے۔ یہ طیارے 1971 کی جیگ کے علاوہ سوویت جنگ کے دوران پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کرنے والےروسی اور افغان طیاروں کو مار گرانےکے لیے بھی استعمال ہوئے۔ میراج ری بلڈ فیکٹری میں ایک مینٹٰننس ہینگر کے گروپ انچارج کیپٹن محمد فاروق کے مطابق میراج طیاروں کی بیرونِ ملک اوور ہالنگ پاکستان جیسے ملک کے لیے کافی مہنگی تھی، لہزاٰ فرانسیسی طیارہ ساز کمپنی کے تعاون سے 1878 پاکستان ایئرو ناٹیکل کمپلیکس میں میراج ری بلڈ فیکٹری کا قیام عمل میں لایا گیا جو اب تک ملک کے لیے عربوں ڈالر کی بچت کر چکی ہے۔ظیاروں کی اوور ہالنگ اور دوبارہ رنگ کے عمل میں اندازا 7 ہفتے کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ فیکٹری ایک سال میں 12 سے زائد طیاروں کی اوور ہالنگ کی صلاحیت رکھتی ہے۔
Pakistani ports and CPEC
There is a missing link between CPEC and KPT, says KPT chairman
Karachi Port Trust (KPT) Chairman Rear Admiral Jamil Akhtar has said the port has all the potential and infrastructure to supplement CPEC, regretting there is a missing link between CPEC and KPT.
Presently the cargo handling share of the port has declined up to 60 per cent but the overall volume has increased and annually the port handles around 2.1 million containers, he noted. Jamil who was speaking in CPEC Summit in Karachi said that after the establishment of Pakistan Deep Water Container Port, it could handle mother ships which presently go to Sallala and Jabal All from where feeder services come to Pakistan.
`Karachi port is ideal to serve western parts of China and Central Asian countries, he added. However, he regretted that there was a missing link between CPEC and KPT.
Under CPEC, KPT could equally play its due role particularly when Pakistan would become a logistical hub and supply chain for South, Central and Western Asia, Middle East and Western China, he summed up.
Chairman Port Qasim Asad Rafi Chandna said the port being 35km away from downtown is ideally located for quick movement of cargo from and outside the port. It has a strong industrial base and connectivity with major road links to upcountry. `PQA has already started contributing towards CPEC projects as it houses some of the power plants set-up under the mega project and also coal terminal for supply of imported coal to Sahiwal coal run power plant. The port has become energy hub for the country where two LNG terminals are already operating,` he said.
Speaking on the occasion, Chairman China Overseas Port Holding Compnay Gwadar Port Zhang Baozhong said the Gwadar Port has already put logistics in place because transport is available, warehouses and customs have also started functioning. Gwadar is a strategically located port with Suez Canal on one side and Malacca strait on the other, he noted.
The first Free Economic Zone at Gwadar had been developed where more than 40pc of investment is Pakistani. Banks, insurance companies, and leasing firms are working in the zone which enjoys tax exemption, he added.
Ghandhara Industries Ahmed Kuli Khan said the auto industry is ready to face the Belt and Road initiative (B&R), highlighting that the company could double its capacity in a short period. However, Mr Khan was not happy over the State Bank unwritten policy of not allowing banks to Enhance the auto industry.
Pakistan needs to modernize its trucking business and transport industry by introducing auto transmission and higher axle load with higher horse power. He further said CPEC is a big opportunity but only those vehicles be allowed to come from China which are not available in the local market.
ECNEC approves Gwadar drinking water, Mohmand Dam Hydropower projects
The Executive Committee of the National Economic Council (ECNEC) Thursday approved three major projects, including supply of drinking water to Gwadar, a hydropower project at Mohmand Agency and Metro Bus service for the new Islamabad International Airport.
The meeting, chaired by Prime Minister Shahid Khaqan Abbasi here, accorded approval to these projects. The ECNEC gave approval for the Rs 309.558 billion multi-purpose Mohmand Dam Hydropower Project.
Besides producing 800 mv electricity, it would also have a storage capacity of 1,594 million cubic meters of water that could be used for irrigation, flood mitigation and supply of drinking water to Peshawar and FATA.
ECNEC gave approval for the construction cost of infrastructure and allied works for Metro Bus Services from Peshawar Morr interchange to New Islamabad International Airport. Central Development Working Party had recommended the review of the project by the ECNEC.The 25.6 km long project, which was still in different stages of completion, would cost Rs.16,427.880 million and provide affordable and convenient transport for passengers using the New Islamabad International Airport, rescheduled for opening in first week of May.
To meet the long standing demand of the people of Gwadar, the port city would get a five million of gallons per day Reverse Osmosis Sea Water Plant at a total cost of Rs. 5,071.43 million. Under this project sea water would be desalinated for catering to the drinking and other requirements of Gwadar City and adjoining areas. The Federal Government has also agreed to increase its financing share from 50% to 67% while the remaining 33% would be financed by the Government of Balochistan.